اگر آپ ان سوالات کی تلاش میں ہیں، تو آپ صحیح جگہ پر ہیں
شہر کی ابتدا
یہ علاقہ کبھی مکمل طور پر ایک صحرا تھا جس میں انسانی آبادی بہت کم تھی جو کچھ لوگ آباد تھے ان کا گزر بسر جنگلی پھلوں ، بھیڑ بکریوں اور کنوؤں پر کاشت چھوٹی چھوٹی خوردنی اجناس پر تھی لیکن بعد ازاں نہری نظام کی وجہ سے آج یہ علاقہ اچھا خاصہ آباد ہو چکا ہے۔ پہلے یہاں کوا بھی نظر نہیں آتا تھا جبکہ اب باغات ہیں بلبلیں چہچہاتی ہیں اور انسانی آبادی بھی رو بہ ترقی ہے۔
محل وقوع
اس شہر کے شمال میں تقریباً چالیس کلو میٹر پر چوک اعظم واقع ہے اور جنوب میں تقریباً ستر کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع مظفر گڑھ آباد ہے۔ اسی طرح مشرقی جانب تیس کلومیٹر پر شہر رنگ پور آباد ہے اور یہ وہی رنگ پور کا علاقہ ہے جس کا ذکر سید وارث شاہ نے اپنی شاہکار کتاب ہیر میں کیا ہے۔ مغربی جانب تیس کلومیٹر پر ایک پرانا شہر دائرہ دین پناہ آباد ہے جو کہ ایک بزرگ دین پناہ کے نام سے مشہور ہے جن کا مزار شریف آج بھی طالبان عشق کے لئے فیوض و برکات کا منبع ہے۔ اسی طرح ان چاروں شہروں کے تقریبا وسط میں واقع ہونے کی بناء پر یہ اپنی ایک منفرد تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔
مغلیہ دور حکومت
مغلیہ دور حکومت میں مغل حکمرانوں نے ملک کے طول و عرض میں دفاعی نقطہ نظر سے قلعہ اور چوکیاں تعمیر کروائیں ۔ دیگر علاقوں کی طرح اس شہر میں بھی ایک قلعہ تعمیر کروایا گیا جو کہ زمانے کی دست و برد سے محفوظ نہ رہ سکا اور آج اس کے صرف نشانات تھانہ کے مغربی جانب اور مڈل سکول کی جنوبی جانب ملتے ہیں ۔ اس قلعہ کے آس پاس کا علاقہ اس وقت ہے آب وگیا تھا۔
ہندو دور حکومت
1840ء میں ایک ہندو راجہ دیوان ساون مل کو بھی اس علاقے پر حکومت کرنے کا موقع ملا اس کا دور حکومت تقریبا نو سال رہا اور اس کی حکومت 1849ء میں ختم ہوئی ۔
انگریز دور حکومت
جب انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو انہوں نے تمام ملک میں نئی اصلاحات نافذ کیں اور اس علاقے میں بھی بندوبست ( استعمال ) کا انتظام کیا۔
چوک منڈا نام کیسے پڑا
اس وقت علاقہ ہذا میں بلوچ قوم کے دو بڑے قبائل پتل اور مونڈہ آکر آباد ہوئے۔ ان دو قوموں کو انگریزوں کی سر پرستی حاصل تھی۔ اس نسبت سے علاقے کا نام پتل مونڈہ پڑ گیا جو کہ بعد میں بدلتے بدلتے منڈا بن گیا۔ ایک روایت کے مطابق اس بستی میں ایک لنگڑا آدمی رہا کرتا تھا۔ لنگڑے کو سرائیکی زبان میں منڈہ کہا جاتا ہے۔ اس طرح اس بستی کا نام منڈہ پڑا۔ ایک اور بزرگ کے مطابق اس علاقہ میں ایک کنواں کھودا گیا صبح کنویں پر گئے تو کنویں پر ایک چھوٹا سالڑ کا (منڈا) کھیل رہا تھا جب اسے پکڑنے کی کوشش کی تو وہ غائب ہو گیا۔ تاہم یہ مافوق الفطرت کہانی معلوم ہوتی ہے اور ان میں سے پہلی بات حقیقت سے زیادہ قریب محسوس ہوتی ہے۔ تاہم ایساموئی مستند وسیلہ موجود نہ ہے جس سے منڈہ کی وجہ تسمیہ کا تعین کیا جائے۔
چوک منڈا سے چوک سرور شہید نام تبدیل کرنے کی وجہ
یہ شہر جو کہ اب تک چوک منڈا کے نام سے موسوم تھا لفظ منڈا اکثر مذاق کا نشانہ بنا رہتا تھا کیونکہ اس کی کوئی ٹھوس وجہ تسمیہ نہ تھی ۔ شمالی جانب واقع شہر خونی چوک کا نام بدل کر چوک اعظم رکھ دیا گیا تھا لوگوں کے دلوں میں اپنے شہر کا کوئی معقول نام رکھنے کی خواہش موجود تھی کیونکہ یہاں کے آباد لوگ جب اپنے عزیز واقارب کو ملنے دوسرے علاقوں میں جاتے تو وہ ہنسی مذاق میں پوچھتے کہ منڈے کا کیا حال ہے؟ پنجابی میں منڈا بچے کو کہتے ہیں۔ کیا وہ ابھی جوان نہیں ہوا ؟
چوک منڈا سے چوک سرور شہید نام کب رکھا گیا اور کس نے یہ نام رکھا
یہ 1983ءکی بات ہے جنرل ضیاء الحق کا دور تھا۔ ڈی سی مظفر گڑھ نے شہر کا نام لوگوں کی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے چوک سرور شہید تجویز کیا۔ جسے لوگوں نے بہت پسند کیا کیونکہ کیپٹن محمد سرور شہید وہ پہلے سپوت تھے جنہوں نے 1948ء میں کشمیر کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا اور حکومت نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں ملک کے سب سے بڑے اعزاز نشان حیدرت نوازا۔ بلا شبہ کسی شہید کے نام سے منسوب اس شہر کا نام لوگوں کو بہت پسند آیا۔ اس طرح چوک منڈا چوک سرور شہید بن گیا۔ نام کی یہ تبدیلی اس جذبے کی نشاندہی کرتی ہے کہ لوگ دفاع وطن کے فریضے کو خوب احساس رکھتے ہیں۔